Sunday, August 23, 2009

وزیراعظم کے نام کھلا خط

وزیراعظم کے نام کھلا خط

 

مکرمی! ہم وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کی خدمت میں عرض کریں گے کہ اللہ نے آپ کو مخدوم ہونے کا موقع دیا ہے یہ اس کی نعمتیں ہیں اس کے پسندیدہ دین کو یوں بدنام کرنے کی مہم کا حصہ نہ بنیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ بیت اللہ محسود کے مرنے یا مارے جانے سے بندوق کا زور نہیں ٹوٹے گا یہ زور عمل داری اور دلیل کی رٹ قائم کرنے سے ٹوٹے گا نہ کہ اسلام کو نت نئی چالوں سے بدنام کرنے سے ٹوٹے گا جب تک امریکہ موجود ہے افغانستان میں نیٹو افواج موجود ہے۔ اس وقت تک یہ زور نہیں ٹوٹے گا جس دن امریکہ رخصت ہو گا یہ زور اس دن ٹوٹے گا۔ یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ اسلام کسی کی جاگیر، میراث اور ملکیت نہیں ہر کوئی فوجی آپریشن، خودکش بمبار یا بیت اللہ محسود نہیں ہے۔ اسلام ان تمام سے مبرا اور بلند ہے اس کا نفاذ حکمت اور دعوت سے ہی ممکن ہے کوئی بندوق اسلام نافذکر سکی اور نہ کرا سکے گی یہ قوت کا نہیں دل و دماغ اور سیرت کا معاملہ ہے۔ اسلام اپنے اندر دفاع کی قوت اور تحفظ کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان میں اسے اپنے مسلح دفاع اور مسلح دفاعی دستوں کی ضرورت نہیں ہے یہاں دعوت دینے والے پاؤں کو کاٹنے کے لئے راستے مسدود نہ کئے جائیں۔ (روبینہ ارشد اور اہل گجرات )

Wednesday, August 19, 2009

Lahore - Voilance against Woman

جناب آصف علی زرداری صاحب صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان

جناب سیدیوسف رضاگیلانی صاحب وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان

مسٹرجسٹس افتخارمحمدچوہدری چیف جسٹس آف پاکستان

جناب میاںشہبازشریف صاحب وزیراعلیٰ پنجاب

جناب آئی جی پنجاب

جناب سی سی پی اولاہور

جناب والا

میںکون ہوں۔ اس کوچھوڑیں جوبھی ہوں ۔
آپ کی حیثیت اورمقام کولاکھوں پاکستانیوں کی طرح جانتاہوں۔ 31جولائی2009ء سے لے کر4اور5اگست کے درمیان تاج پورہ غازی آباد کے درمیان کمہار پورہ کے مین بازار کے ساتھ واقع گلی نمبر20 میںصبح9بجے ایک بڑے حرام زادے جسے شاہدخالد قلی چھری مار اوراس کے چندحرام زادے ساتھیوں نے ایک جوان بچی کوگھرسے باہر نکالا ساتھ اس کاچیخیں مارتا جواں بھائی تھا۔ اوراس گلی میں بچی کواس حالت میں لٹاکرکہ اس کی قمیض پوری اتری ہوئی تھی۔ شرم حیا کازیور سربازار الف ننگا تھا اورغنڈے اس حال میںدوگھنٹے اس کوبری طرح زدوکوب کرتے رہے وہ لہولہان ہوگئی اوراس کابھائی لیٹی ہوئی بہن کے سینے پرلیٹ کرمار کھاتے کھاتے خون میںڈوب گیا تاکہ بہن کی بے پردگی کوشایدبچاسکے۔کمہارپورہ گلی نمبر20 کے بوڑھے عورتیں، بچیاں، بچے جوان سب اپنے اپنے مکان کی چھتوںسے اس الف ننگی عزت کوتارتار ہوتے دیکھتے رہے سناہے تھانہ غازی آباد میں پرچہ بھی درج ہوا جسے پانچ ہزار روپے کے معاوضے پرصلح نامہ میںبدل دیاگیا۔
میںکون ہوں اس سے کہیںزیادہ ضروری یہ ہے کہ اپنے رپورٹر کمہارپورہ کی گلی نمبر20 میںجاکراس سچ کی تصدیق کرلیں ۔میں آپ سے اجازت چاہتاہوں اوردیکھتاہوں کہ انسانیت اورشرافت کی کوئی نشانی موجود ہے کہ نہیںلیکن میں نے اپنافرض اداکردیا اب روز حشر کامالک جانے یاآپ جانیں۔
ایک ۔لاہوریا

Sunday, August 16, 2009

سندھ ایجوکیشن فاﺅنڈیشن کی روح رواں محترمہ انیتا غلام علی صاحبہ کے نام ایک کھلا خط۔

سندھ ایجوکیشن فاﺅنڈیشن کی روح رواں محترمہ انیتا غلام علی صاحبہ کے نام


ایک کھلا خط۔

محترمہ انیتا غلام علی صاحبہ

السلام علیکم


سندھ ایجوکیشن فاﺅنڈیشن نے گذشتہ کئی سالوں سے سندھ میں تعلیم کے گرتے ہوئے معیار کو جس طرح سنبھال کر تنزلی کے بجائے ترقی کی جانب گامزن کیا ہے وہ قابل تحسین ہے۔ یوں تو سندھ ایجوکیشن فاﺅنڈیشن کے بہت سے کام سراہے جانے کے قابل ہیں۔تاہم سب سے اچھا اور قابل تعریف کام صوبے بھر میں ایک اچھی اور قابل ٹیم کا انتخاب اور ان کی اپنے کام سے کمٹمنٹ ہے۔جس کی وجہ سے تعلیم کی ترقی کو مہمیز ملی ہے۔

محترمہ انیتا صاحبہ، آپ اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ ایک اچھی ریپوٹیشن بنا لینا نسبتاً آسان کام ہے۔ لیکن اسے برقرا رکھنا اور تسلسل سے پائیدار نتائج کا حصول ایک مشکل ٹارگیٹ ہے۔ہماری قومی بدنصیبی یہی رہی ہے کہ چند اچھے لوگوں نے آکر اپنا تن من دھن سب کچھ لگا کر ان اداروں کو ترقی کی جانب رواں دواں کیا ، اور جب تک وہ لوگ ان اداروں میں رہے وہ ادراے کامیابی کی ایک مثال بنے رہے، لیکن ان لوگوں کے جانے کے بعد وہ ادارے نہ صرف انحطاط کا شکار ہوئے بلکہ ناکامی کی ایک عبرت ناک مثال بن کر ہمارے سامنے ہیں۔ مین پیارے وطن کے 50فی صد سے زائد ان اداروں کے نام نہیں لوں گا۔ سب قارئیں ہمارے تمام ادرون کے حال اورحالات سے اچھی طرح واقف ہیں۔دیکھنے میں آےا ہے کہ سندھ ایجوکیشن فاﺅنڈیشن کی ٹیم اپنی چند کامیابیوں کو دیکھ کر اس روٹین پر چل نکلی ہے۔جو ہمارے یہاں کے سرکاری ملازمین اپناتے ہیں۔یعنی نوکری ملنے کے آغاز میں تو زیادہ کام کرتے ہیں اور عالیشان کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لیکن بعد میں نظام کے حصہ بن کر پانی کے جھاگ کی مانند بیٹھ جاتے ہیں۔ اور ساری عمر بلکہ اپنی ساری نسلوں کو اپنی عمدہ کارکردگی کے چند واقعات سنا کر پھولے نہیں سماتے۔ حالنکہ تاریخ گواہ ہے کہ ملک میں ان تریسٹھ سالوں میں جو ترقی ہوئی ہے یا ان اداروں نے کیسی ریپوٹیشن اور کتنی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ میرا اشارہ محکمہ تعلیم سے لے کر قانون نافذ کرنے والے بہت سے اداروں کی طرف بھی ہوسکتا ہے۔ جن کے دیئے اعداد و شمار اور رپورٹوں تک پر بھی کوئی عالمی اادرہ اعتبار نہیں کرتا۔

یہی روٹین سندھ ایجوکیشن فاﺅنڈیشن میں بھی نوٹس کی گئی ہے۔لہٰذا گذارش ہے کہسندھ ایجوکیشن فاﺅنڈیشن کی انتظامیہ اپنی پرانی کامیابیوں کے سہارے صرف زندہ رہنے کے بجائے ، غیر ذمہ داری سے اجتناب برتے اور اپنی حقیقی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے کام اور نتائج کے حصول پر دھیان دے۔

میری ناقص رائے کے مطابق سیف میں گڈ گورننس کے لئے قائم کئے گئے شعبہ مانیٹرنگ اینڈ ایوالویشن کو مزید مضبوط اور موئثر بنایا جائے۔اور اس شعبے میں کسی مخلص اور کل وقتی شخص کو تعینات کیا جائے جو مانیٹرنگ اور ایولویشن کا خاطر خواہ تجربہ رکھتا ہو ۔وہ ایسا سینیئر پروفیشنل ہو جو صرف ایس کے پراجیکٹس کی مانیٹرنگ اور ایوالویشن ہی نہ کرے بلکہ ان پراجیکٹس اور متعلقہ معاملات کے حوالے سے ملنے والی شکایات کی بھی غیر جانبدارانہ انکوائری کرے۔اور انٹرنیشنل ڈونرز بالخصوص ایشیائی ترقیاتی بنک اور OECDکے بتائے گئے طریقہ ہائے کار کے مطابق کئی رخی تفتیش بھی کرے۔اور تفتیش کے بعد کسی بھی بد عنوانی ، فراڈ اور غلط بیانی میں ملوث افراد اور فرم کے خلاف کارروائی کے لئے سفارشات مرتب کرکے آپ کو بھجوائے۔ جبکہ ایسی فرموں اور افراد کو نہ صرف آئندہ کے لئے سیف کے کاموں سے دور رکھا جائے بلکہ انہیں ہمیشہ کے لئے بلیک لسٹ کر دیا جائے۔ جیسا کہ ایشائی ترقیاتی بنک کے آفس آف دی آڈیٹر جنرل میں قائم کئے گئے انٹیگرٹی ڈویژن میں کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے مزید تفصیلات اور مزید رہنمائی وہاں سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

حال ہی میں سندھ بھر سے متعدد دوستوں نے شکایات بھجوائی ہیں کی سیف کے زیر انتظام پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ کے تحت کھولے جانے والے اسکولوں کے لئے ویریفکیشن سروے کرائے گئے۔ یہ سروے پرائیویٹ فرمز کے ذریعے کروائے گئے۔ جن کے لئے ان کو ٹھیکے دیئے گئے۔سروے کے دوران ان فرمز پر مختلف جگہوں پر مختلف الزامات لگائے گئے ہیں۔راقم بذات خود ضلع سانگھڑ میں کام کرنے والی ایک پرائیویٹ سروے فرم کا حصہ رہا ہے۔اور انہی بے قائدگیوں کی وجہ سے عین درمیان میں سروے کے کام سے الگ ہو گیا۔ دوستوں نے کافی منع کیا، اے سی ہوٹل میں رہائش، گاڑی اور 1000روپے ےومیہ کی دیہاڑی چھوڑ کر صرف اس لئے واپس چلا آیا کہ ابھی تک فدوی کا ضمیر زندہ ہے۔اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ فدوی اپنے صاف اور شفاف کیریئر پر کوئی کالا داغ یا معمولی دھبہ لگانا بھی پسند نہیں کرتا۔اگر فدوی اپنی آنکھوں سے غلط کام ہوتے دیکھ کر اس سروے ٹیم کا حصہ رہتا تو ساری عمر فدوی کو ضمیر کی خلش بے چین کئے رکھتی۔بہرحال۔۔۔۔۔ ان فرموں پر جو الزامات لگائے گئے ہیں ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔مطلوبہ قابلیت والی ٹیمیں بنانے کے بجائے کم تعلیمی معیار والے لڑکے بھرتی کئے گئے اور کام نکالا گیا۔ موئثر سپر وژن کا نہ ہونا، ٹیموں کے اراکن بشمول سپر وائزر اور سرویئرز کا کرپشن میں ملوث ہونا۔ پیسے لے کر سروے کے نتائج میں ردوبدل کرنا، کھلے عام درخواست گذاروں سے تحفے تحائف وصول کرنا۔

میں نے جب فرم کے پارٹنر کو سارے حالات بتائے اور سروے چھوڑ کر جانے کی وجہ بتائی تو انہوں نے کہا کہ میں اس معاملے کی تحقیقات کروں گا۔بعد میں ایک موقع پر اس نے مجھے ایس ایم ایس کر کے بتایا کہ میں نے تحقیقات کی تھیں تمہارے جانے کے بعد ایسا کوئی واقع پیش نہیں آیا تھا! چہ معنی دارد؟ یعنی جن لوگوں نے غلط کام کئے تھے میں نے ان کی وجہ سے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا اور کام چھوڑ کر چلا آیا اور انہوں نے میرے جانے کے بعد کرپشن چھوڑ دی۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا نا کہ کرپٹ میں تھا۔ یا میرے جانے کے بعد 15آدمی راہ راست پر آگئے۔ اگر ایسا ہوا تو میں اللہ تعالیٰ کا شکر گذار ہوں کہ اس نے میری اس قربانی کو رائیگاں نہیں جانے دیا اور میری وجہ سے کچھ لوگوں کو سیدھا راستہ مل گیا۔ الحمد اللہ۔

لیکن وہ کونسی وجوہات تھیں کہ ایک اپلیکینٹ نے مجھے دھمکی آمیز ایس ایم ایس بھیجا۔کہ تم بھلے بھول جاﺅ ہم تمہیں نہیں بھولیں گے۔کیونکہ اس کی بے ایمانی ، جھوٹ اور بار بار کی چیٹنگ کی وجہ سے میں نے اس کے خلاف ریمارکس لکھے تھے۔ اسے میرے ان ریمارکس کے بارے میں کس نے بتایا۔نیز میرے سالے اور بہنوئی کے توسط سے مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئی گئیں۔سرے ٹیم کے انچارض نے مجھے جوتے مارنے اور میرے کپڑے اتارنے کی دھمکیاںدیں۔ فرم کے پارٹنر نے ڈیویلپمنٹ سیکٹر میں میرا کیریئر تباہ کرنے کے لئے اپنی مکمل کمٹمنٹ کا اظہار کردیا۔اور جب میں نے سیف کے متعلقہ افراد سے ایس ایم ایس اور ای میل کے ذریعے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو مجھے کسی بھی کسی کا جواب نہیں دیا گیا۔جس سے صاف ظاہر ہے کہ سیف کی اندر سے اس فرم کو بچانے اور غریب عوام کے نام پر آنے والے لاکھوں روپے کے فنڈز کی بندر بانٹ میں سب ملے ہوئے ہیں۔لیکن میں اپنے ارادے پر قائم ہوں اور انشاءاللہ زندگی کی آخری سانسوں تک بدعنوانی اور بد عنوانوں کے ساتھ لڑتا رہوں گا۔ انشاءاللہ۔

محترمہ انیتا صاحبہ! آخر میں میری آپ سے یہی گذارش ہے کہ۔اس خط کو پہلی یا آخری آواز سمجھتے ہوئے اس پر ضروری کارروائی کروائیں۔اور اگر ان فرموں پر یہ الزامات ثابت ہوتے ہیں تو ان کے نہ صرف واجبات روک دیئے جائیں۔ بلکہ انہیں آئندہ کے لئے سیف اور دیگر اداروں کے کاموں سے بلیک لسٹ کر دیا جائے۔آپ سے یہ گذارش کرنا بھی از حد ضروری سمجھتا ہوں کہ اس موقع پر آپ سیف کے اندر موجود کالی بھیڑوں کو بھی سامنے لائیں جو تھوڑی سی کمیشن، تھوڑی سی رشوت اور چھوٹے چھوٹے ذاتی مفادات کے حصول کے لئے پوری سندھی قوم کے مستقبل سے کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہیں قرار واقعی سزا دینے سے ہی کرپشن کا خاتمہ ہوگا، گڈ گورنینس مستحکم ہوگی اور سندھ ایجوکیشن فاﺅنڈیشن اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوگی۔اور اس تمام کارروائی سے میڈیا کے ذریعے عوام کو ضرور باخبر رکھیں۔ ورنہ ہمارے دلوں میں جنم لینے والے شبہات تقویت پکڑتے جائیں گے اور یہ غبار کسی بڑے طوفان کو نہ کھڑا کردے۔

میری اپنے عوام سے بھی ایک گذارش ہے کہ کرپشن کے خلاف آواز اٹھانا وقت کا تقاضاہے۔ ہمیں اپنے عزیز و اقارب کو کرپشن کرتے دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند نہیں کرنا چاہیئےں۔ بلکہ غلط کو غلط کہنے کی عادت پیدا کرنا چاہیئے ۔کیونکہ کرپشن کسی معمولی فائدے، نفع یا معمولی رقم کی ہو یا لاکھوں کروڑوں روپے کی۔ کرپشں کرپشن ہی ہے۔ ہم اس کے لئے جتنی صفائی پیش کریں گے۔ وہ کرپشن ہی رہے گی اور اس سے حاصل ہونے والے مفادات یا پیسا حرام ہی ہوگا۔نیز اگر ہم اپنے ارد گرد پھیلی کرپشن پر یونہی خاموش رہے تویہ ایک دیمک کی ترح ہمیں چاٹ چاٹ کر کھوکھلا کر دے گی۔ اور ہماری اگلی نسلوں کو بھی بھوکا اور مقروض رکھے گی۔اور ہماری اگلی نسل بہت تیز ہے۔ وہ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔لہٰذا کرپشن کا خاتمہ ابھی یا کبھی نہیں۔

محمد موسیٰ سومرو۔بانی و آرگنائزر، ڈسکور این جی او۔ کشمور

ای میل:discover_ngo@yahoo.com

0344-3118911

Friday, August 14, 2009

Astore

Abbottabad

Awaran

Attock

Bagh

Badin

Bajaur

Bahawalpur

Bahawalnagar

Barkhan

Bannu

Bhakkar

Batagram

Buner

Bolan

Bhimber

Chakwal

Chagai

Chitral

Chiniot

Charsadda

Dera Bugti

Dadu

Dera Ismail Khan

Dera Ghazi Khan

F.R. Bannu District

Diamer

F.R. Kohat District

F.R. D.I.Khan District

F.R. Peshawar District

F.R. Lakki Marwat District

Faisalabad

F.R. Tank District

Ghizer

Ghanche

Ghotki

Gilgit

Gujranwala

Gujranwala

Gujrat

Hafizabad

Gwadar

Hangu

Haripur

Thursday, August 13, 2009

Hyderabad

Jacobabad

Islamabad

Jafarabad

Jhal Magsi

Jamshoro

Kalat

Jhelum

Jhang

Karak

Karachi

Kamber

Kasur

Kashmore

Kharan

Khanewal

Khairpur

Kech (Turbat)

Khuzdar

Khushab

Kohistan

Kohat

Khyber

Kotli

Kohlu

Lakki Marwat

Lahore

Kurram

Lasbela

Larkana

Layyah

Lodhran

Lower Dir

Loralai

Mandi Bahauddin

Malakand

Mastung

Mardan

Mansehra

Matiari

Mirpur

Mianwali

Mohmand

Mirpurkhas

Multan

Muzaffargarh

Muzaffarabad

Musakhel

Naushahro Firoz

Naseerabad

Narowal

Nankana Sahib

Okara

Nushki

Nowshera

North Waziristan

Neelum

Peshawar

Panjgur

Pakpattan

Orakzai

Qilla Saifullah

Qilla Abdullah

Poonch

Pishin

Sahiwal

Rawalpindi

Rajanpur

Rahim Yar Khan

Quetta

Shaheed Mohtarma Benazir

Shahdad Kot

Sargodha

Sanghar

Sialkot

Shikarpur

Sheikhupura

Shangla

Sudhnati

South Waziristan

Skardu

Sibi

Tando Allahyar

Swat

Swabi

Sukkur

Thatta

Tharparkar

Tank

Tando Muhammad Khan

Upper Dir

Umerkot

Toba Tek Singh

Ziarat

Zhob

Vehari